تحریر: محمد بشیر دولتی
حوزہ نیوز ایجنسی । سوشل میڈیا کو فارسی میں فضاٸ مجازی اور اردو میں سماجی ذراٸع ابلاغ کہا جاتا ہے۔ اس دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے کوئی بھی ذی شعور انسان انکار نہیں کرسکتا، کوٸی آلہ بھی بذاتہ اچھا یا برا نہیں ہوتا۔اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ ہم اس مضمون میں اس کے فواٸد اور نقصانات کو مختصر ذکر کرتے ہیں اور آخر میں اس بحث کا مثبت خلاصہ قارٸین کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ سوشل میڈیا پر اپنے وقت ضاٸع کرنے کے بجاۓ اس کی اہمیت کو جان کر اسے باہدف اور بامقصد بنایا جا سکے۔
سوشل میڈیا کے فواٸد:
سوشل میڈیا کے فواٸد بے شمار ہیں، لیکن ان فواٸد کو حاصل کرنے کے لٸے بندے کا باشعور اور پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے۔دیکھنے میں یہ فقط ارتباط کا ذریعہ ہے مگر درحقیقت یہ کماٸی، تبلیغ، جاسوسی، جنگِ نرم یعنی حکومتوں کی تبدیلی، سیاسی اہداف، تہذیب و ثقافتوں کی دگرگونی یا حفاظت، ظالموں کےخلاف بہترین اسلحہ، مظلوموں کی حمایت اور اعلٰی انسانی اقدار کی حفاظتی جنگ لڑنے والوں کے لٸے بہترین میدان اور اسلحہ ہے۔
سوشل میڈیا کے ذراٸع:
سوشل میڈیا کے ذراٸع بہت زیادہ ہیں۔ کچھ ملکی تو کچھ بین الاقوامی حیثیت اور پہچان رکھتے ہیں۔ ہم یہاں صرف بین الااقوامی وسائل کا نام لیتے ہیں، جن میں انٹرنیٹ، فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب، ٹیلیگرام، انسٹاگرام اور واٹساپ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
گلوبل ولیج:حضرت غالب آج زندہ ہوتے تو نہیں معلوم کہ ویڈیو کال کو کونسی ملاقات قرار دیتے
پہلی بار گلوبل ولیج کا تصور اور اصطلاح کینیڈا کے معروف مصنف اور رسانے کے مدیر مارشل مک لوہان نے دیا۔ یہ بندہ 21 جولاٸی 1911 میں پیدا ہوا۔31 دسمبر 1980 کو ٹورنٹو میں انتقال کرگیا۔ اس وسیع وعریض دنیا کو کم و بیش آج سے ستر اسّی سال قبل اسی بندے نے عالمی گاٶں کہہ کر آنے والے دور میں تیزی سے بڑھتے ہوئے ارتباطات و پیام رسانی کو قبل از وقت فاش کردیا تھا۔ آج سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کی وسعتیں واقعی سکڑ چکی ہیں۔فاصلے اب قربتوں میں بدل گٸے ہیں۔ دوریاں نزدیکیوں میں ڈھل چکی ہیں مکان و زمان کے فاصلے سمٹ چکے ہیں۔ قلم و کاغذ کی جگہ اب انگلیوں کے لمس نے لے لیا ہے۔ زمین کے اس کنارے سے اس کنارے تک فریکوینسی پلک جھپکنے میں پہنچ جاتی ہے۔ نہ فقط آواز پہنچتی ہے بلکہ حرکات و سکنات بھی دیکھےجاسکتے ہیں۔ ان حرکات و سکنات کی جنبش کو اتنے دقیق اور سرعت سے دیکھا جاسکتا ہے کہ پلکوں کے جھپکنے اور ہونٹوں کے ہلنے کو میلوں کی مسافت میں ایک لحظے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ خط و کتابت کوآدھی ملاقات قرار دینے والا حضرت غالب آج زندہ ہوتے تو نہیں معلوم کہ ویڈیو کال کو کونسی ملاقات قرار دیتے۔ اب تو نامعلوم معلوم میں، غاٸب شہود وحاضر میں، پس منظر پیش منظر میں، سرگوشی صداٶں میں، انتظار وصلوں میں، بےشعوری اب شعور میں بدل گٸی ہے۔ اب کوٸی بھی واقعہ دنیا کے جس کونے میں رونما ہوجاۓ منٹوں میں دوسرے کونے میں رہنے والوں تک پہنچ جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس واقعے پر اپنا فیڈ بیک، نکتۂ نظر اور جذبات کا اظہار کر کے اپنے احساسات کو ہزاروں لاکھوں لوگوں تک بھی پہنچایا جاسکتا ہے۔ اپنے گھر اور محلے میں دھتکارے ہوۓ لوگ بھی ہزاروں دوست احباب بنا سکتے ہیں۔ ایسے ایسے دوست جنہیں کبھی دیکھا نہ ہو، جن کے بارے میں کبھی سوچا نہ ہو۔ لیکن آپ نہ فقط اپنے دل کی بات ایسوں تک پہنچا سکتے ہیں بلکہ وہ آپ کی دلجوٸی بھی کرسکتے ہیں۔
جغرافیاٸی سرحدیں اب ناکارہ ہوچکی ہیں۔ نظریاتی سرحدیں اب مضبوط کی جاسکتی ہیں آپ کا نظریاتی بندہ دنیا کے جس کونے میں بھی ہو آپ نہ فقط اسے ڈھونڈ سکتے ہیں، بلکہ فکری طور پر اس سے جڑ بھی سکتے ہیں۔ اپنی کامیابی کی خوشی اور ناکامی کا غم آپ دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں۔دوسروں کی خوشی اور غم کو مل جل کر بانٹ سکتے ہیں۔مارشل مک لوہان نے واقعی بہت خوب کہا کہ یہ دنیا اب ایک عالمی گاٶں ہے۔
سوشل میڈیا تبلیغ کا بہترین ذریعہ:
واضح ہے کہ سوشل میڈیا نے فاصلوں کو سمیٹ کر پیام رسانی کو آسان کیا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو بھی سوشل میڈیا پہ ہے اس کا یقینا کوٸی عقیدہ یا نظریہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ سوشل میڈیا کو اپنے عقاٸد و نظریات کے پرچار و تبلیغ کا ذریعہ بناتے ہیں۔ اس میں فیس بک اور واٹساپ قابل ذکر ہیں۔ فیس بک، ٹویٹر اور انسٹاگرام صاف چشمہ یا سمندر کی مانند وسیع ہے۔ البتہ واٹساپ کنویں کی مانند ہے۔ جس میں بحث مخصوص افراد تک محدود رہتی ہے۔ بعض واٹساپ گروپ بدبودار پانی پہ مشتمل کنواں کی طرح ہے۔ جس میں ایڈ ہونے والا کچھ عرصہ اس بدبو سے اذیت محسوس کرتا ہے پھر دھیرے دھیرے وہ بھی عادی بن جاتا ہے۔ کچھ لوگ اس تنہا مچھلی کی طرح ہےجس کے بارے میں ہم پڑھتے رہتے ہیں کہ ”ایک مچھلی سارے تالاب کو گندھا کرتی ہے“۔ ایسا بندہ کسی گروپ میں پہنچ جائے تو گروپ کو گندہ کیۓ بغیر نہیں رہ سکتا۔ کچھ گروپس میں کسی بات پر بحث و مباحثہ کی گنجاٸش نہیں ہوتی۔ جونہی کسی بات پر بحث ہوتی ہے ایڈمن حضرات پہلی فرصت میں آنلی ایڈمن کردیتے ہیں۔ یہاں صرف مخصوص تنظیم یا شخصیت کی واہ واہ اور غیر ضروری اسٹیکرز کی بھر مار پہ سب خوش ہوتے ہیں جونہی کسی نظرے یا شخصیت پہ اصلاحی نقد کے ذریعے نوآوری یا جہت دینے کی کوشش کریں تو گروپ بند کیا جاتا ہے ۔
البتہ فیس بک تبلیغ کا بہترین ذریعہ اور وسیلہ ہے۔لیکن یہ ہر بندے کو درک نہیں۔ جس کسی کے ادراک میں یہ بات ہے وہ اپنے عقاٸد و نظریات کی تبلیغ و دفاع کرتا ہے۔ جسے یہ درک نہ ہو تو وہ کبھی شعوری تو کبھی لاشعوری طور پر دوسروں کے عقاٸد نظریات و اہداف کی نہ فقط تبلیغ کرتا ہے بلکہ اپنے ہی عقاٸد و نظریات و اہداف کی مخالفت بھی مختلف پوسٹوں کو لاٸک و شیٸر کر کے کرتا رہتا ہے۔اس کی تفصیلی نقصانات میں ذکر کروں گا۔
مارشل مک لوہان اپنی کتاب ”understanding Mediya“ میں کہتا ہے کہ ”Mediya is message“ یعنی خود میڈیا ہی پیغام ہے۔ آپ پیام لانے والے کو پیام سے جدا نہیں کرسکتے۔ایسے میں دانا وہی ہے جو غیروں کے میدان میں اپنے لٸے کھیلے۔ دوسروں کے میدان میں دوسروں کےلٸے نہ کھیلے۔
سوشل میڈیا تربیت گاہ:
سوشل میڈیا کے فواٸد میں سے ایک بہترین فاٸدہ یہ ہے کہ آپ اسے تربیت گاہ میں بدل سکتے ہیں۔ اس بارے میں رہبر معظم سید علی خامنہ ای کا فرمان ہے کہ ”کمپیوٹر آنے والی نسلوں کو تربیت دے گا“ اس بات کی حقیقت سے کوٸی باشعور انسان انکار نہیں کرسکتا ۔ فلم ،کارٹون، ڈرامے اور گیمز یہ سب اسی بات پر دلیل ہیں۔ اب فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہمارے بچے کی تربیت کس قسم کے ڈراموں، فلموں اور گیموں کے ذریعے ہو۔ ایرانی فلم ساز مجید مجیدی کی فلم واضح مثال ہے۔ مجید مجیدی کی فلم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایکٹرز آیت اللہ جوادی آملی سے ملنے آۓ ۔ اس ملاقات میں علامہ جوادی آملی نے فرمایا کہ اگر اس زمانے میں کوٸی پیغمبر مبعوث ہوتا تو ناممکن نہیں تھا کہ وہ ہنر سینماٸی کے ساتھ آتے۔“ چونکہ آج کل بہترین فلموں و ڈراموں کے ذریعے ہی بہتر تبلیغ ممکن ہے۔ بعض ایرانی تاریخی فلمیں جیسے حضرت محمد ﷺ حضرت یوسف حضرت سلیمان، اصحاب کہف، شہید کوفہ، تنہا ترین سردار، قیام امیر مختار، غریب طوس وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ اخلاقی و خاندانی تربیت اور بچوں کی تربیت پہ بہترین فلمیں موجود ہیں۔ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی فلموں کے مقابلے میں ترک فلم ارتغل اور دیگر تاریخی فلمیں بھی فحاشی و بیہودگی سے کسی حد تک پاک فلمیں ہیں۔ کورین تاریخی فلم جمونگ اور بعض دیگر تاریخی فلمیں بھی قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ مختلف اسلامی گیمز بھی بچوں کے لٸے آچکی ہیں۔ ان کی تشخیص کے ساتھ اسلامی تربیتی و اخلاقی چیزوں کو بچوں کے لٸے مہیا کرنا والدین کی اولین ذمہ داریوں میں سے ہے۔
اپنی اولادوں کو سوشل میڈیا سے دور رکھنا اب ممکن نہیں رہا۔ البتہ لاپرواٸی کٸے بغیر برے چیزوں سے بچا کر اچھی چیزوں کو مہیا کر کے دینا ممکن ہی نہیں بلکہ آسان بھی ہے۔
تعلیم و تعلم کا بہترین ذریعہ:
سوشل میڈیا بہت سے علوم کے سیکھنے اور سکھانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس حوالے سے ہمیں اپنا جاٸزہ لینے کی ضرورت ہے آیا میں نے سوشل میڈیا کو پیسوں اور وقت کی بربادی کا ذریعہ بنایا یا کچھ سیکھنے اور سکھانے کا ذریعہ بنایا ہے۔
کماٸی کا ذریعہ:
اس حقیقت سے بھی کوٸی انکار نہیں کرسکتا کہ سوشل میڈیا کماٸی کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔جو افراد سوشل میڈیا کے ہدف دار استعمال کے قاٸل ہیں ان کے لٸے کھلا میدان اور بےشمار راستے موجود ہیں جیسے مختلف کلاسیں لینے کے علاوہ یوٹیوب پر اچھے مواد اپلوڈ کرنا۔ مگر بدقسمتی سے اس طرف بہت کم لوگ متوجہ ہیں۔
سوشل میڈیا کے نقصانات:
سوشل میڈیا کے نقصانات بھی بہت ہیں ۔ان میں سے چند اہم نقصانات کا ہم یہاں مختصر ذکر کرتے ہیں۔
درست نقطۂ نظر:
دنیا میں فیس بک کا استعمال سب سے ذیادہ ہے۔اس وقت ایک ارب سے زائد افراد فیس بک استعمال کر رہے ہیں۔ فیس بک کے بارے میں پہلے یہ معروف تھا کہ آپ کچھ بھی اپلوڈ کرسکتے ہیں اور بول بھی سکتے ہیں۔لیکن اب یہ بات نعرے کی حدتک ہے۔ عملا ہم قاسم سلیمانی سمیت مقاومتی بلاک کے حق میں کچھ مواد اپلوڈ کرنا تو دور کی بات کچھ لکھ بھی نہیں سکتے۔ اسی طرح یمن اور فلسطین کے حق میں اور اسراٸیل کے خلاف کچھ بھی نہیں لکھ سکتے۔ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ہزاروں معروف ساٸیٹس، ایکونٹس اور آٸی ڈیز بلاک کردی گٸی۔ خود میری دو آٸی ڈیز مکمل بند ہوچکی ہیں۔ نٸی آٸی ڈی کے لٸے چہرے کی مختلف جہت سے وڈیو دے کر اجازت ملی ہے۔ اب انتہاٸی احتیاط کے باوجود کٸی پوسٹ انتباہ کے ساتھ فیس بک انتظامیہ ہٹاچکی ہے۔ جولوگ سی این این، اسراٸیلی ریڈیو ،چینل 7 اور امریکی و اسراٸیلی جراٸد کی خبریں اور نکتہ نظر پھیلاٸیں ان کی آٸی ڈیز کی فعالیت کو بڑھادی جاتی ہے۔ یہ فقط دعوی نہیں ذاتی تجربہ اور مشاہدہ بھی ہے۔
وقت کا ضیاع:
انسانی زندگی کا قیمتی سرمایہ وقت ہے۔ وقت ہی کے مجموعے سے زندگی بنتی ہے۔ وقت کو ضاٸع کرنے کا مطلب ہے زندگی کو ضاٸع کرنا۔ اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ کوٸی سوشل میڈیا پہ وقت ضاٸع کرئے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پیسہ دے کر اپنا وقت ضاٸع کر رہا ہے۔ یہ دگنا نقصان ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو سوشل میڈیا نہیں چلاتے بلکہ سوشل میڈیا ان کو چلاتی ہے۔ وہ سوشل میڈیا پہ سوار نہیں بلکہ سوشل میڈیا ان پر سوار ہے۔ یہ انتہاٸی خطرناک بات ہے۔
بقول شاعر کے۔
ٹھوکر جدھر کو لگ گٸی جاتا ہوں لڑھکتا
اپنا ٹھکانا خود مجھے معلوم نہیں ہے۔
فضاٸ مجازی:
اسلام آباد میں ایک سوشل ایکٹویسٹ کے قتل پر مہینوں اسے شہید قرار دیتے رہے بعد میں پتہ چلا کہ لڑکی کےچکر میں مارا گیا تھا
سوشل میڈیا کو فارسی میں فضاٸ مجازی کہاجاتا ہے۔یعنی اس کا حقیقت سے کوٸی تعلق نہیں۔ جن کا سالوں سے اپنی بہن بھاٸیوں سے دعا سلام نہیں وہ فیس بک پہ روز ہزاروں کو سلام کرتے ہیں۔ عملا جس کا کوٸی ہم فکر ہم نظر دوست احباب نہ ہو فیس بک پر ہزاروں دوست بناتے ہیں۔ ماں باپ کی جو عزت احترام اور درست دیکھ بال نہ کریں وہ اطاعت والدین کی پوسٹ کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں ایک سوشل ایکٹویسٹ کے قتل پر مہینوں اسے شہید قرار دیتے رہے بعد میں پتہ چلا کہ لڑکی کےچکر میں مارا گیا تھا۔ ایک ٹک ٹاکر کے ایک لاکھ سے زائد فالورز تھے قتل ہوا تو جنازے میں بارہ نفر بھی نہ تھے۔ ایک ٹک ٹاکر چند ماہ تک مظلومہ بنی رہی بعد میں پتہ چلا سب کچھ سستی شہرت کے لٸے پری پلاننگ کیا تھا۔ تین بچوں کی ماں ٹک ٹاکر کے فالورز ایک لاکھ سے ذیادہ ہوئے تو بچوں اور شوہر کو چھوڑ کر بھاگ گٸی۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا پروپیگنڈہ اور شخصیت کو مسخ کرنے کے ساتھ شخصیت پرستی و خود پسندی کا ذریعہ بھی ہے۔
گیمز:
رہبر معظم کا ایک بیان ہے کہ: سوشل میڈیا نوجوانوں کی قتل گاہ ہے“
واقعا سوشل میڈیا نہ فقط عقاٸد و نظریات کی قتل گاہ ہے بلکہ یہ آرام و آساٸش کے ساتھ اپنی خوابگاہوں میں سونے والے نوجوانوں کی قتل گاہ بھی ہے۔اس پر دلیل مختلف تشدد پسند، خود ستاٸی سے لے کر خود کشی تک کروانے والے گیمز ہیں۔جیسے ”بلیو وھیل گیم“اس خطرناک گیم کا موجد روس کے باٸیس سالہ نفسیات کے طالب علم فلپس بڈیکن تھا۔ اس کو اب تک کی خطرناک ترین گیم کہا جاتا ہے۔ اس میں مراحل طے کرنے والا جب تک خود کو زخمی کر کے اپنی تصویر جب تک انہیں اپلوڈ نہ کرتے اگلے مرحلے میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ اس گیم میں جیتنے کے لٸے زندگی سے ہارنا ضروری تھا۔ آخر میں کھیلنے والے کو کسی بلندی سے کود کر خودکشی کرنا پڑتا تھا۔
دنیا بھر میں کٸی افرادیہ گیم کھیل کر خود کشی کر چکے ہیں۔ ایک دو کو آخری مراحل میں خوش قسمتی سے بچایا بھی جاچکا ہے۔
حال ہی میں پب جی کھیلنے سے منع کرنے پر لاہور میں زین نامی لڑکے نے ماں بہن اور بھاٸی کو قتل کردیا۔ اس جیسی کٸی مثالیں موجود ہیں۔
غیراخلاقی مواد:
اس وقت سوشل میڈیا غیر اخلاقی مواد سے لبریز ہے ۔ موباٸل اب ارتباطی وسیلے کے علاوہ منی سینما میں بدل گیا ہے۔ مضبوط گھر کی چاردیواری اور تنہا کمرے میں ہوکر بھی کوٸی کمرے میں نہ محفوظ ہوتا ہے نہ تنہا ہوتا ہے ۔ ایسے میں بچوں اور بچیوں کو راتوں میں موباٸل سے دور رکھنے اور بہترین تربیت دینے کے علاوہ اس دلدل سے محفوظ رکھنے کا کوٸی اور وسیلہ نہیں ہے۔
نتیجہ:
بےشک سوشل میڈیا کی اہمیت سے کوٸی انکار نہیں کرسکتا۔ فرد یا معاشرے کو بگاڑنے اور سنوارنے میں اس کا بنیادی کردار ہے ۔ بذاتہ سوشل میڈیا اچھا ہے نہ برا ہے، بلکہ اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ اس کے درست استعمال کے لٸے اسے باقاعدہ سیکھنا اور تربیت لے کر باہدف بنانا ضروری ہے۔ اس کا درست استعمال ہو تو بہت مفید چیز ہے۔ اسی لٸے رہبر معظم نے فرمایا ” میں آج اگر رہبر انقلاب نہ ہوتا تو سوشل میڈیا کا سربراہ ہوتا“
جو نظریاتی و مکتبی ہوتا ہے وہ شعوری طور پر سوشل میڈیا کو اپنے عقیدے یا نظریے کے دفاع اور پرچار کا ذریعہ بناتا ہے۔ ایسے لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ صاحب تحریر ہماری تنظیم کا ہے یا نہیں؟ ہمارے دوستوں میں سے ہے یا نہیں بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ اس کی باتیں درست ہیں یا نہیں ؟ اس کا نظریہ اور پیغام شاٸستہ اور قابل قبول ہے یا نہیں؟ اگر نظریہ درست اور باتیں قابل قبول اور شاٸستہ ہوں تو اجنبی ہوکر بھی ایک اصول پسند انسان اسے پھیلانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ خدا ہمیں وابستگیوں سے ماورا ہوکر سوشل میڈیا کو حقاٸق کے پرچار کرنے، ظلم کے خلاف آواز حق بلند کرنے اور سچ اور سچاٸی کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔ایسے ہی لوگوں کے لٸے رہبر معظم نے فرمایا کہ ہم ” سوشل میڈیا پہ میدان جنگ میں ہیں،ہمیں اس مورچے میں حاضر رہنا چاہٸے۔ہمیں اس میدان کے عمار بننا ہے۔ چونکہ ”فضاٸ مجازی کی اہمیت انقلاب اسلامی کے برابر ہے۔“ لہذا اس جنگ نرم میں بہتر طریقے سے اپنے عقاٸد، نظریات، تہذیب و ثقافت کی حفاظت، تحفظ اور پرچار کے ساتھ معاشرے میں انسانی اقدار کی پاسداری، حق کی حمایت باطل کی مخالفت بہت ضروری ہے۔
خدا ہمیں سوشل میڈیا کو تمام تر ذاتی وابستگیوں سے ماورا ٕ ہوکر حق، سچ اور اصول پسندی کے معیارات کے مطابق استعمال کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔آمین
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔